سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی و دیگر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، فریقین کی جانب سے تفصیلی دلائل دیئے گئے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ سماعت کررہاہے ۔مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف نے کیس میں پارٹی بننے کی متفرق درخواست دائر کردی ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ریمارکس کےبعد فل کورٹ بنائی جائے۔جسٹس جمال نے کہا کہ فل کورٹ کیوں ؟ وہی 7 ججز بنچ میں بیٹھنے چاہئیں ، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلے فیصلہ کریں کہ 4/ 3 کا یا 3/2 کا فیصلہ تھا، ساری قوم ابہام میں ہے۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے انتظامی مسائل کو اندرونی معاملہ کہا تھا، میں اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں، انتخابات کیس پر ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ چار تین سے ہے، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیسے کر دیا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے کیسے مشاورت کی، سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کے مطابق انتخابات کا حکم نہیں دیا گیا ، سریم کورٹ کا آرڈر آف دا کورٹ چار ججز کا فیصلہ ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دوران سماعت کہا کہ میری آج پہلی پیشی ہے، ایک پروسیجر ہے، عدالت کو جلدی کیا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ اگر دستاویزات نہیں تو آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ دوسرے وکیل کو سپر سیڈ کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کی مرضی ہے، جو آپ کرنا چاہیں، عدالت جس وکیل کو لینا چاہتی ہے لے لے، میں روسٹرم چھوڑتا ہوں، جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد علی شاہ اور سجیل سواتی آئے تھے ، عرفان قادر ’ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں‘ کہہ کر کمرۂ عدالت سے چلے گئے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آ گئے۔
لیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا ، صدر مملکت نے تیس اپریل کی تاریخ دی، کمیشن نے تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردی، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں، عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتداء کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قانونی رائے لیے بغیر تین ججوں کے اکثریتی فیصلے پر عمل کیا اگر جمال خان مندوخیل ریمارکس نہ دیتے تو میں یہ بات نہ کرتا، کیا اقلیت خود ساختہ طور پر یہ دعوی کر سکتی ہے کہ وہ اکثریت میں ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ جو ریمارکس میں نے سوال کیا ہے اس کا جواب الیکشن کمیشن دے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ پانچ جج عدالت میں بیٹھے سن کر فیصلہ کریں اور دو کہیں کہ ہمارا فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہے ، ہمارے چیمبرز میں جو کچھ ہوا یہاں وہ زیربحث نہیں آنا چاہیے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ ابھی مجھے اس پر نئی ہدایات نہیں ملی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کہتا ہے صاف اور شفاف انتخابات ہونے چاہیے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں لگا سپریم کورٹ کا یکم مارچ کا تین دو کا فیصلہ درست تھا، ہم نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے بعد مشاورت شروع کی۔
سجیل سواتی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخیں تجویز کیں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، 22 مارچ کا آرڈر کب جاری کیا‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’آرڈر 22 مارچ شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگیاں موصول ہو چکی تھیں، آرڈر جاری ہونے تک شیڈول کے چند مراحل مکمل ہو چکے تھے‘۔
سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ’فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، آئین کا آرٹیکل 17 پرامن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہوں، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے‘۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ’ بھکر میانوالی میں دہشتگردی کا خطرہ تھا ، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے‘۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دہے کہ ’آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں ، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی‘۔
جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ جس دن سپریم کورٹ نے انتخابات کا حکم دیا اس دن بھی تھا، کیونکہ سپریم کورٹ یہ طے کر رہی تھی کہ تاریخ کس نے دینی ہے اس لیے معاملہ سپریم کورٹ میں پہلے نہیں آیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فروری سے اپریل تک سیکورٹی فراہمی سے معذرت کی گئی ، سیکورٹی فورسز مردم شُماری میں بھی مصروف ہیں، وزارت خزانہ نے الیکشن کے لیے 20 ارب روپے دینا ناممکن قرار دیا، پنجاب کے لیے 52 ہزار اور کے پی کے لیے 15 ہزار اہلکار حساس پولنگ سٹیشن کے لیے درکار تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں سال 2023 میں انتخابات ہونے تھے بجٹ نہیں رکھا، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیا مالی سال جولائی 2023 سے شروع ہوگا اگلے بجٹ میں رکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پورے ملک میں انتخابات ہوں تو کتنے پیسے درکار ہوں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ پورے ملک میں انتخابات ہوں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے اگر الگ الگ انتخابات ہوں گے تو 61 ارب خرچ ہوں گے، پنجاب اور کے پی میں جلد انتخابات سے 20 ارب اضافی خرچ ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بہت خدشات ہیں، صدر کو کے پی میں دہشت گردی کی یہ حقائق نہیں بتائے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت غلط کیا کہ اتنی حساس معلومات صدر کو نہیں بتائی، صدر نے آپ کے مشورے سے تاریخ دی۔
سجیل سواتی نے جواب دیا کہ پنجاب کے مطابق کچے میں آپریشن مکمل ہونے میں 6 ماہ تک لگ جائیں گے، الیکشن کمیشن کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی گنجائش نہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ’20 سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے۔ 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشگردی عروج پر تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ 58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی۔ صدرِ مملکت کو یہ حقاٸق بتائے بغیر آپ نے تاریخیں تجویز کر دیں۔
الیکشن کمشین کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ’صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا، انہوں نے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔
جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ ’اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے؟‘ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے۔ الیکشن کمیشن کا مسٸلہ فنڈزکی دستیابی کا ہے۔
وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، دو اسمبلیاں تحلیل ہیں الیکشن کروانا کمیشن کی ذمہ داری ہے، کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے، اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا۔
سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر عمل کیا , جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے؟ صبح سے پوچھ رہا ہوں کوئی بھی عدالتی حکم سامنے نہیں لا رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کیوجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا، کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دیکر واپس لی گئی، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کونسا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اس پر وکیل ای سی پی نے کہا کہ 8 اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ اپنی آئینی زمہ داری سے بھاگ رہے ہیں ، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اپنی آئینی زمہ داری سے نہیں بھاگ رہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا اور اداروں کے عدم تعاون پر پورا شیڈول منسوخ کر دیا ۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے کہ آپ نے 90 روز میں انتخابات کرانے ہیں اگر کوئی تعاون نہیں کررہا تو آپ عدالت آتے نہ کہ پورا پراسس ہی منسوخ کردیا، کیا آپ اپنی آئینی زمہ داری ادا کرنے میں ناکام نہیں رہے، آپ نے صرف رپورٹس پر چھ ماہ بعد کی تاریخ دے دی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر اور صدر تاریخ دے دیں تو آپ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں آپ شیڈول اور تاریخ کو مکس نہ کریں تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی، آپ کو کس کی گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کی فریق بننے کی درخواستیں وصول کر لیں ، رجسٹرار آفس نے سیاسی جماعتوں کی درخواست اجازت لینے کے بعد وصول کیں۔
قبل ازیں رجسٹرار آفس نے تینوں سیاسی جماعتوں کی فریق بننے کی درخواست وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مذکورہ درخواست دوران سماعت عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔
خیال رہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے فریق بننے کا فیصلہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت سے قبل کیا تھا۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں، ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے، انتخابات تاخیر سے ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔
گزشتہ روز اٹارنی جنرل نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی ، چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کرے، ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، بینظر بھٹو کی شہادت کے باوجود انتخابات ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی انتخابات ہوئے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے تو انتخابات کی تاریخ کا کیا ہوگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ازخودنوٹس کیس میں عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ۔