دھمکی آمیز خط میں حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو ملوث قرار دیدیا

اسلام آباد (سی این پی ) حکومت نے وزیر اعظم کو موصول ہونے والے دھمکی آمیز خط میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو ملوث قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اس معاملے میں ملوث ہیں جو لندن میں بیٹھ کر ملاقات کر رہے ہیں،، وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اگر کسی کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کیلئے تیار ہیں کیونکہ سب کو عدالت عظمیٰ کے سربراہ پر اعتماد ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزراء اسد عمر اور فواد چوہدری نے گذشتہ روز یہاں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ قانونی بندشوں کے سبب یہ مراسلہ صرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، وزیر اعظم نے یہ خط سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا اس لیے کہا ہے کہ اس مراسلے میں براہِ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہورہا ہے،ان کا کہنا تھا مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس خط میں لکھے ہوئے الفاظ بتاسکوں، لیکن کلیدی باتیں دہرا دیتا ہوں، وہ حصہ جو عدم اعتماد سے جڑتا ہے اس کی اہم باتیں کیا ہیں۔ مراسلے کی تاریخ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے قبل کی ہے،اسد عمر نے کہا کہ اس مراسلے میں براہ راست نوازشریف ملوث ہیںجو لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں، وزیر اعظم چاہیں گے تو اس بارے میں تفصیلات بتادیں گے، پی ڈی ایم کی سینئر لیڈر شپ اس بات سے لاعلم نہیں ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم کے خیال میں یہ ضروری ہے کہ عوام کو آگاہ کیا جائے، انھوں نے کہا کہ مراسلے میں براہ راست عدم اعتماد کا ذکر ہے، مراسلے میں براہ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہوا، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مراسلے میں دو ٹوک لکھا ہےکہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو خطرناک نتائج ہوں گے لہٰذا بیرونی ہاتھ اور عدم اعتماد کی تحریک آپس میں ملے ہوئے ہیں۔اسد عمر نے کہا کہ ۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ہمیں خط کیوں نہیں دیا جا رہا، کچھ راز قومی نوعیت کے ہوتے ہیں، وزیر اعظم نے مجھے کہا ہے کہ اگر کسی کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کیلئے تیار ہیں کیونکہ سب کو عدالت عظمیٰ کے سربراہ پر اعتماد ہے۔اسد عمر نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود اراکین میں متعدد کو یہ نہیں معلوم کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے مزید کیا عناصر ملوث ہیں، ظاہر ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ وہ ایک ایسے اقدام کا حصہ بنیں جس سے ملک کے لیے خطرات پیدا ہوتے ہوں۔ تمام تر معلومات سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی کے اراکین یہ سوچیں گے کہ کیا وہ جانتے بوجھتے اس کا حصہ بننے کو تیار ہیں، کیا وہ پاکستان پر لگتے والی قدغن کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔ اراکین قومی اسمبلی بہت محب وطن ہیں ظاہر ہیں کہ وہ تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہی تحریک عدم اعتماد کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کریں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ نواز شریف کی اسرائیلی سفارت کار سے ملاقاتیں ریکارڈ پر ہیں، ایسے لوگ جب بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو وہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن جاتے ہیں، اسی لئے نواز شریف کو باہر بھجوانے کی مخالفت کی تھی،وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نے چیف جسٹس کو پاکستان کے بڑے ہونے کی حیثیت سے خط دکھانے کا فیصلہ کیا ہے، خط دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو خط سے جڑے معاملات کا علم ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، لیاقت علی خان شہید ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی، جنرل ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا، اس خط کے ذریعے ان نتائج سے آگاہ کیا گیا کہ سیاست عمران خان کو کدھر لے کر جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان دلیر آدمی ہیں، وہ لوگوں کے سامنے چیزیں رکھتے ہیں، عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسا لیڈر موجود ہے جو باہر کی کالیں نہیں لیتا، یہ وہ لیڈر ہے جو عوام سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے ہمارا کام ہے کہ لوگوں کے سامنے حق اور سچ رکھا جائے، فیصلہ پاکستان کے لوگوں اور منتخب نمائندوں نے کرنا ہے۔فواد چودھری نے کہا کہ وزیراعظم کی مقبولیت کے باعث بیرونی عناصر خوفزدہ ہیں، یہ خط تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے کا ہے، اس خط میں تحریک عدم اعتماد کی باتیں بھی شامل ہیں، اپوزیشن کے لوگ لاعلمی کے باعث اس سازش کا حصہ ہیں۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ نواز شریف کو باہر نہ جانے دیا جائے، اس طرح کے لوگ جب باہر چلے جاتے ہیں تو وہ انٹرنیشنل اسٹیبلشنٹ کا آلہ کار بن جاتے ہیں، نواز شریف کی اسرائیلی سفارت کار سے ملاقاتیں ریکارڈ پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کے دو تین نام نہاد وی لاگرز نے خط لہرایا، ان نام نہاد سینئر وی لاگرز کی ٹی وی پر بھی ریٹنگ نہیں، وہ اپنے وی لاگ پر ہی لگے رہتے ہیں، انہیں کل بھی کہا تھا کہ وہ نوجوان رپورٹرز سے تربیت حاصل کرلیں کہ خبر کی تصدیق کس طرح کی جاتی ہے۔