سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔تفصیلی فیصلہ 86 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس پر فیصلےکا آغاز سورۃ الشعراء سے کیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے گھر اجلاس میں 12 ججز نے ازخودنوٹس کی سفارش کی، عدالت نے آئین مقدم رکھنےاور اس کے تحفظ کیلئے اسپیکر رولنگ پر ازخودنوٹس لیا اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی۔
فیصلے کے متن کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہٰذا وزیر اعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتاہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے وکیل نے بیرونی مداخلت سے متعلق مراسلے کا حوالہ دیا لیکن مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا اور مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا۔
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی، مبینہ بیرونی مراسلہ خفیہ سفارتی دستاویز ہے، سفارتی تعلقات کے باعث عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی۔
فیصلے کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کا اسپیکررولنگ پرازخودنوٹس سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر تھا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، وزیراعظم اور صدر کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کیلئے دی گئی 3 اپریل کی اسپیکر رولنگ شواہدپرمبنی ہونی چاہیے تھی، ثبوت کے بغیر لیے گئے حکومتی اقدامات کا جوڈیشل ریویوکیا جا سکتا ہے، بیرونی مداخلت سے متعلق مبینہ مراسلہ 7 مارچ کو موصول ہوا، سابقہ حکومت نے مراسلے کی تحقیقات کرائیں نہ یہ بتایاکس نے بیرونی سازش کی؟ حکومت نے 31 مارچ تک مراسلے کی تحقیقات کرائیں نہ اپوزیشن کے سامنے حقائق رکھے۔
فیصلے کے متن کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن وزیر قانون نے پہلی بار بیرونی سازش سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کو حکم دینے کی استدعا کی، تفصیلی رولنگ سے ثابت ہوا کہ بیرونی سازش کے نامکمل، ناکافی اور غیرنتیجہ خیزحقائق اسپیکرکوپیش کیےگئے، ڈپٹی اسپیکر نے اسی وجہ سے بیرونی سازش پر تحقیقات کرانے کی رولنگ دی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ 2 اپریل کو اس وقت کےوزیرقانون نے بیرونی مداخلت سے متعلق کمیشن بنانے کا کہا، انکوائری کمیشن کا قیام غماز ہے کہ سابقہ حکومت کو بیرونی مداخلت کا شک تھا، ڈپٹی اسپیکر نے قومی سلامتی کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی، عدالت بیرونی مداخلت سے متعلق دلیل سے مطمئن نہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے بیرونی سازش سے متعلق ثبوتوں میں صرف ڈپٹی اسپیکرکا بیان ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں نہیں بتایا گیا کہ مراسلے کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن میں کس ممبر نے بیرون ملک رابطہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی تفصیلی رولنگ میں نہیں بتایاگیا مبینہ مراسلے کے مطابق حکومت گرانےمیں کون شامل ہے؟
فیصلے میں قرار دیاگیا کہ آرٹیکل 69(1) واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے لیکن پارلیمانی کارروائی میں آئینی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں، عدالت مقننہ کے معاملات میں آئینی حدود پار نہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گی، آئین کے آرٹیکل 95 (2) کے تحت اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے کا فیصلہ ذاتی طورپر وزیرقانون کےکہنے پر لیا، عدالت آرٹیکل 69 (1) پر اپنا مؤقف واضح کرتی ہے، ڈپٹی اسپیکرکے اپنے اختیارات سے متعلق آرٹیکل 69 (1) پرعملدرآمد میں نقائص تھے، تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کوپیش ہونےکے بعد 22 مارچ کو اجلاس نابلاکراسپیکرنےآئینی خلاف ورزی کی اور اسپیکرنے 3 اپریل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کوبحث کاموقع نہ دےکرآئینی خلاف ورزی کی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ رولنگ آئین میں اسپیکرکو دیے گئے اختیار سے تجاوز تھا، رولنگ دینے کا اختیارصرف اسپیکر کے پاس ہے، ڈپٹی اسپیکرکو نہیں، سائفرقومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا اورسائفر سے متعلق کسی ممبرقومی اسمبلی کوبولنے کی اجازت نہیں دی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 95 کو نظر انداز کیا، ڈپٹی اسپیکرنے آرٹیکل 5 کے تحت رولنگ دی جو اس کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔
فیصلے کے متن کے مطابق اپوزیشن پربیرونی سازش کاحصہ ہونے کا الزام لگایا گیا مگر اس کا مؤقف نہیں لیاگیا، آئین اسپیکریا ڈپٹی اسپیکرکوتحریک عدم اعتمادپرووٹنگ میں تاخیرکااختیارنہیں دیتا، ڈپٹی اسپیکریا اسپیکر کے پاس تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا بھی آئینی اختیار نہیں، تحریک عدم اعتماد صرف ووٹنگ سے ہی منظوریا مسترد ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ آئین کے آرٹیکل 95 اور 69(1) کی تضحیک اورغیرقانونی ہے، انکوائری کمیشن قائم کرکے بیرونی سازش کی تحقیقات کرائی جاسکتی تھیں، سپریم کورٹ سے قومی سلامتی کیخلاف سازش سے متعلق ازخودنوٹس کی استدعاکی گئی لیکن سپریم کورٹ اس طرح کے معاملے پر نوٹس نہیں لے سکتی۔
عدالت نے قرار دیا کہ اسپیکر کی آرٹیکل 5 کی بنیاد پر رولنگ دینا مفروضوں، یکطرفہ اور دائرہ اختیار سے باہر تھا، اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر آئین کی شقوں کی غلط تشریح کریں تو عدالت حکم دے سکتی ہے اور آئین کی صحیح تشریح کیلئے پارلیمنٹ کو حاصل استحقاق میں عدالتی مداخلت اس کی تنزلی نہیں مضبوطی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ایک فریق نے اس بات پر بہت زور دیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی توحکومت مبینہ کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں جائے گی۔
تفصیلی فیصلےمیں سپریم کورٹ نے کہا کہ اخلاقیات پر مبنی اعتراضات پر فیصلے دینے کا اختیار عدالت کے پاس نہیں، سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62،63، قومی احتساب آرڈیننس اورالیکشن ایکٹ 2017 کرپشن کے ملزموں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے،صرف نااہل افراد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ اپوزیشن مختلف سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت ہے،وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں عوامی مفاد کیلئے کام ہوسکتا ہے، حکومت میں رہ کر یا پھر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے آئینی ذمہ داری پوری کی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے اسپیکرکی رولنگ کے بعد ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا،آئینی بحران سے ملک کا ہر شہری متاثر ہوا، بطورعدالت ہم سختی سے قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔عدالت محض تاثر یا کسی کی انفرادی رائے پر فیصلے نہیں کرتی۔
تفصیلی فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ صدر وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر قانونی اقدام کے باعث قومی اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دینا آئین کی نافرمانی ہوگا۔قومی اسمبلی بحال ہونے سے پارلیمانی جمہوریت کو فروغ ملا۔عدالت کو اس سے غرض نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہویا نا کام،آئینی بالادستی لازم ہے، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن لازمی ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی تاہم اُس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک کو آئین کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ انہوں نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا کہہ دیا ہے قوم الیکشن کی تیاری کرے۔
3 اپریل کو ہی عمران خان کے خطاب کے بعد صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تاہم اپوزیشن نے اس سارے عمل کو غیر آئینی قرار دیا اور اسمبلی کے اندر ہی دھرنا دے دیا۔
قومی اسمبلی کی کارروائی پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کی پانچ روز تک سماعت جاری رہی اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور اس کے بعد کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔